توشہ خانہ کیس میں کب کیا ہوا؟

عمران خان پر یہ کیس کیسے چلا۔ اور کن کن مراحل سے گزرا اس پر اک نظر ڈالتے ہیں

4 اگست 2022 کو اسپیکر قومی اسمبلی نے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا۔محسن شاہ نواز رانجھا سمیت پی ڈی ایم کے پانچ ارکان قومی اسمبلی نے اسپیکر سے درخواست کی تھی جس میں آرٹیکلز 62 اور 63 کے تحت نااہلی کا مطالبہ کیا تھا۔

عمران خان پر الزام تھا کہ انہوں نے 2018 سے 2022 کے دوران اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں بیرون ممالک سے ملنے والے قیمتی تحائف کم قیمت پر حاصل کیے اور پھر ان تحائف کو 6 لاکھ 35 ہزار ڈالر میں فروخت کیا۔

7 ستمبر 2022 کو بانی تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو تحریری جواب دیا جس میں بتایا گیا کہ 2018 سے 2021 کے دوران 58 تحائف موصول ہوئے، جنہیں باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم ادا کرکے خریدا۔

21 اکتوبر 2202 کو الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کو نااہل قرار دیا، اس فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔فیصلہ میں کرمنل کمپلینٹ فائل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی۔

15 دسمبر 2022 کو توشہ خانہ فوجداری کیس ایڈیشل سیشن جج ظفر اقبال نے قابل سماعت قراردیا۔

9 جنوری 2023 کو ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے کیس دوبارہ قابل سماعت قرار دیا، جہاں 27 سماعتوں میں عمران خان ایک دفعہ بھی پیش نہیں ہوئے۔

10 مئی 2023 کو نیب حراست میں بانی پی ٹی آئی کو پولیس لائنز سے عدالت لایا گیا اور فرد جرم عائد ہوئی۔ تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیشن کورٹ کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے درخواست گزار کو سننے اور 7 روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔

12 جولائی 2023 کو توشہ خانہ فوجداری کیس میں ٹرائل کا اہم مرحلہ شروع ہوا عمران خان نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا، الیکشن کمیشن کے دو گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے عمران خان اور دیگر گواہان کی فہرست مسترد ہوئی۔

4 اگست2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیشن کورٹ کا توشہ خانہ فوجداری کیس سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے جج کو ہدایت کی کہ درخواست گزار کو سن کو دوبارہ کیس کا فیصلہ کیا جائے اور پھر 5 اگست کو سیشن کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو تین سال کی قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔5 اگست2023 کو فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔تاہم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیر اعظم کو جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔6 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے خلاف اپیل واپس لینے کی درخواست مسترد کردی تھی

This post was originally published on VOSA.