اسرائیل غزہ میں لڑنے کی بجائے وہاں سے نکل جائے تو یہی بہتر ہے،بائیڈن انتظامیہ کا خیال
اسرائیل نے شمالی غزہ میں حماس کو دوبارہ منظم کرنے کی جنگ لڑی ہے کیونکہ امریکہ نے خبردار کیا تھا کہ اس کے پاس عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔رفح پر پورے پیمانے پر حملہ "انتشار” کو ہوا دے گا۔یہ بات سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔دوسری جانب اسرائیل کی فوج نے شمالی غزہ پر حملے کو تیز کر دئیے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل پر تنقید کی جارہی ہے امریکہ میں بھی عوامی تنقید جاری کی ہے۔بلنکن نے کہا کہ اسرائیل کااصرار ہے کہ اسے جنوبی غزہ کے شہر رفح پر حملہ کرنا ہوگا جہاں دس لاکھ سے زیادہ افراد نے پناہ حاصل کی تھی تاکہ حماس کی موجودگی کو "ختم کرنے” کے اپنے بنیادی مقصد کو پورا کیا جا سکے۔ انٹونی بلنکن نے خبردار کیا کہ رفح پر مکمل زمینی حملہ بھی اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔اگر اسرائیل رفح میں داخل ہو کر کارروائی کرتا ہے، تب بھی وہاں ہزاروں مسلح حماس باقی رہ جائیں گے، انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ اسرائیل نے شمال میں علاقوں کو صاف کیا ہے لیکن خان یونس میں حماس واپس آ رہی ہے۔ بلنکن نے کہا کہ اسرائیل کی جارحیت کے نتیجے میں "معصوم شہریوں کی جانوں کا خوفناک نقصان” ہوا ہے۔ انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کی حالیہ رپورٹ کو بھی نوٹ کیا جس میں پتا چلا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیاروں کے استعمال سے بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔بلنکن نے کہا کہ رفح پر حملے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اسرائیل کو غزہ کے لیے جنگ کے بعد ایک قابل اعتماد منصوبہ پیش کرنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ بلنکن نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کا خیال ہے کہ اسرائیل کو "غزہ سے نکلنے کی ضرورت ہے۔اسرائیل کے پاس حماس کے عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کا جامع منصوبہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بس کی بات ہے۔
This post was originally published on VOSA.