پاکستان کے حوالے سے جب بھی منفی خبریں منظر عام پر آتی ہیں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے گزشتہ برس جون کے مہینے میں 350 پاکستانی لبنان میں کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ یہ لوگ روزگار کی تلاش میں نکلے لیکن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چند روز قبل کرغستان کے دارالحکومت پیشک میں ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے لیس مظاہرین نے پاکستانی طلبہ کے ہاسٹل میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد طالب علموں کو زخمی کر دیا ،آخری خبروں تک ان طلبہ میں سے چند کی حالت نازک بتائی گئی۔ اس نوعیت کی خبروں سے ایک طرف پاکستان کی ساکھ خراب ہوتی ہے جبکہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو ذہنی کرب سےبھی گزرنا پڑتا ہے۔ کرغستان کے وزیر صحت نےرواں برس جنوری میں اسلام آباد میں منعقد گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی سمٹ میں شرکت کے دوران بتایا تھا کہ ملک میں مختلف یونیورسٹیوں میں 12 ہزار پاکستانی طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستانی طلبہ کی ایک کثیر تعداد وسطی ایشیا کے دیگر ممالک سمیت 69 لاکھ آبادی والے ملک کرغستان کو میڈیکل کی تعلیم کے لیے کیوں چن رہی ہے اس سوال کا جواب پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کے نظام سے جڑا ہے۔ آئیے پہلے وسطی ایشیا کے اس خوبصورت ملک کے بارے میں چند تفصیلات میں نظر ڈالتے ہیں،یہ ملک سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد 1991 میں ایک خود مختار ریاست بنا تھا ۔ کرغستان ایک لینڈ لاکڈ یعنی زمین سے گرا ہوا ملک ہے ،جس کے شمال میں قا قستان جنوب میں تاجکستان مشرق میں چین اور مغرب میں ازبکستان واقع ہے۔ مذاہب کی بات کی جائے تو کرغستان میں 80 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ 17 فیصد روسی ارتھوڈاکس اور جبکہ تین فیصد دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کرغستان کی کل آبادی لگ بھگ 70 لاکھ ہے، جس میں سے 15 لاکھ افراد روزگار کے لیے بیرون ملک مقیم ہیں، جو کل آبادی کا 21 فیصد ہے۔ ان حالات میں پاکستانی طلبہ وسطی ایشیا کے اس چھوٹے سے ملک میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کیوں جا رہے ہیں اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان طلبہ کی جانب سے کر غستان کے میڈیکل کالجز کا انتخاب اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ ایک تو پاکستان میں سرکاری میڈیکل کالجز میں میرٹ بہت زیادہ بنتا ہے جبکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں بھی اکثر طلبہ کو جگہ نہیں ملتی یا ان کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے خیال رہے کہ گزشتہ سال کی ایڈور میڈیکل کالج کا میرٹ 93.6 فیصد پر بند ہوا تھا جبکہ سب سے کم میرٹ 91.2 فیصد ڈی جی خان میڈیکل کالج کا رہا تھا۔ کرغستان میں میڈیکل کالجز کے انٹری ٹیسٹ نہیں ہوتے صرف آپ کے ایف ایس سی میں نمبر 60 فیصد سے زیادہ ہونے کی شرط رکھی جاتی ہے۔ کرغستان میں تعلیم 2019 تک تو طلبہ کو سستی پڑتی تھی لیکن اب ڈالر کی ریٹ بڑھنے کے بعد یہ یونیورسٹیاں بھی سستی نہیں رہی۔ ایک رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ چند پاکستانیوں کی جانب سے کرغستان میں میڈیکل کالجز کھولے گئے ہیں یا ان میں سرمایہ کاری کی گئی ہے وہ ڈالر میں ہی فیس لیتے ہیں اس لیے یہ کوئی سستا آپشن نہیں ہے۔ ایک انداز ے کے مطابق یہ پورا بزنس تقریبا 50 سے 100 ملین ڈالرز سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ واضح رہے 2020 میں پاکستان میڈیکل کونسل کی جانب سے کرغستان کے تمام میڈیکل یونیورسٹیوں کو بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا، جس کے بعد کرغزحکومت کے ساتھ ملکر ان یونیورسٹیوں کی اکریڈیڈیشن کا عمل شروع کیا گیا ۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ یہ یونیورسٹیاں ادارے کے واضع کردہ قواعد پر پوری نہیں اترتی، اس کی کوئی منطق سمجھ نہیں آتی کہ آپ ایک یونیورسٹی جو پاکستان میں کھول سکتے ہیں، اسے اٹھا کر آپ نے ایک مختلف ملک میں کھول دیا، کچھ تو غلط ہو رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے جی ڈی پی کا دو فیصد سے بھی کم تعلیم کے لیے مختص کر رکھا ہے یہی وجہ ہے پاکستان کے ذہین طلبہ انتہائی باصلاحیت امریکہ کینیڈا اور دیگر ممالک میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور اس میں سے ایک بڑی تعداد وہیں ہو کر رہ جاتے ہیں ۔حکومت پاکستان کو تعلیم کے شعبے کے لیے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اس بات میں شک نہیں کہ 21کیسویں صدی میں ترقی اور خوشحالی کی بنیاد نالج اکانمی پر قائم ہے۔ اس کا ثبوت ہم پہلے ہی جاپان ،کوریا، تائیوان سنگاپور، وغیرہ کی صورت میں دیکھ چکے ہیں چین بھی اب اسی راستے پر چل پڑا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ممالک نے اپنی اعلی تعلیم و تحقیق داروں پر بے حد سرمایہ کاری کی اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کو اعلی تعلیم بالخصوص سائنس ٹیکنالوجی انجنئیرنگ اور حساب کی تعلیم کے لیے دوسرے ممالک بھیجا۔ان نوجوانوں سائنسدانوں نے ٹاپ یونیورسٹیوں میں پڑھا۔ جدید ترین لیباٹریوں میں کام کیا، اپنے شعبوں کے ماہرین کے ساتھ مل کر تحقیق کی اور یہ تحقیقات مایا ناز تحقیق جریدوں میں شائع کروائیں۔ کوریا نے 1980 کی دہائی میں امریکہ اور یورپ تک مشنز بھیجے تاکہ وہاں موجود کورین سائنسدانوں کو خطیر رقومات کے پیکجزدے کرکوریائی تعلیمی اور تحقیقی اداروں کی جانب راغب کیا جا سکے۔ حال ہی میں چین نےتھاؤزنڈ ٹیلنٹ پروگرام شروع کیا، جس کا ہدف وہ چینی شہری ہیں جو امریکہ اور دنیا کی دیگر اعلی ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں ملک واپس آنے پر انہیں پرکشش بونس ریسرچ فنڈز کی گارنٹی کافی تعداد میں ٹیکنیکی اسٹاف اور اپنے شعبہ مہارت میں نوجوان طلباء کو تربیت دینے کا موقع دیا جاتا ہے، انہیں رہا ئش خوراک اور منتقلی پر سبسڈیز دی جاتی ہے، ان کی شریک حیات کو یقینی ملازمت فراہم کی جاتی ہے اور انہیں ان کی آبائی علاقوں میں باقاعدگی سے بھیجا جاتا ہے چنانچہ اس میں حیرت کی بات نہیں کہ چینی کمپنیاں علی بابا اور ٹین سینٹ سائنس ٹیلنٹ کے سب سے بڑے مراکز بن چکے ہیں۔ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر چین کی سرمایہ کاری 1991 میں 9 ارب ڈالر سے بڑھ کر 409 ارب ڈالر ہو گئی ہے جو کہ امریکہ کے 485 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ چین فلوقت اپنی مجموعی قومی پیداوار جی ٹی پی کا 2.4 فیصد ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر خرچ کر رہا ہے۔ نیشنل سائنس بورڈ کے مطابق چین اس سال کے اختتام تک امریکہ کو پیچھے چھوڑ دینے کی راستے پر کامزن ہے۔ 2016 میں ایسا پہلی بار ہوا کہ سال بھر میں چین نے امریکہ سے زیادہ سائنسی اشاعتیں کی، چین نے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سائنسی خدمات انجام دینے والے سائنسدانوں کو اپنی جانب راغب کیا۔ یہ ماہرین مقامی سائنسدانوں کے ساتھ علم پیدا کرنے اور بانٹنے میں تعاون کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں صورتحال کیا ہے ہمارے پاس اعلی تعلیم یافتہ ٹیلنٹ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ 1989- 90میں تقریبا 10 ہزار پاکستانی طلبہ امریکی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے جبکہ ان کے مقابلے میں ہندوستانی طلبہ کی تعداد 26 ہزار 240 تھی ہائر ایجوکیشن کمیشن ایچ ای سی نے پی ایچ ڈی کے لیے نوجوان پاکستانیوں کو غیر ملکی یونیورسٹیوں میں بھیجنا شروع کیا تھا۔ محدود فنڈنگ اور ہمارے طلبہ کی جی ار ای امتحان کلیئر کرنے میں مشکلات کی وجہ سے وہ زیادہ تر یورپی اور چینی یونیورسٹیوں تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔ اس میں کوئی غلط نہیں ہے مگر ان ممالک میں کورس ورک اور جامع امتحانات نہیں ہوتے جن کی وجہ سے یہ امریکی یونیورسٹیوں جتنے سخت مقابلے پر مبنی نہیں ہوتے جو اب بھی دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں ہیں بیرون ملک سے ٹیلنٹ کو پاکستان لانے کے لیے چین اور کوریا کی مثال پر عمل کیا جا سکتا ہے اور انہیں وقت معاوضے مراعات وسائل اور کام کرنے کے لیے مناسب و مددگار ماحول فراہم کیا جانا چاہیے۔ تنخواہوں کا پاکستانی یکساں پیکسل بیرون ملک مقیم ٹیلنٹ کی پاکستان واپسی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، یہ تنخواہیں تحقیق ذہنیت کے بجائے اوسط درجے پر رہنے والے کو فروغ دیتی ہیں۔یہاں تک کہ وہ لوگ جو واپس آنے کی ہمت کر بھی لیں تو ایک سخت معادانہ ماحول ان کا منتظر ہوتا ہے۔ جس میں یونیورسٹیوں کے اعلی عہدوں پر براجمان عہدے دار وں کی زندگیاں اس قدر مشکل بنا دیتے ہیں کہ یا تو وہ لائن پر آ جائیں یا پھر واپس چلے جائیں ۔پاکستان کو اب دنیا کے بارے میں اپنا نقطہ نظر تبدیل کر کے مستقبل کی جانب دیکھنا ہوگا۔ اگر ہم دنیا کی 200 سے زائد اقوام سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان کو اپنے ہنر مند نوجوانوں لڑکے اور لڑکیوں کو سہولیات دینی چاہیے کہ تاکہ وہ ہمارے عوام کی خدمات کرسکیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جائے گا
This post was originally published on VOSA.