سٹی یونیورسٹی آف نیویارک میں یہود دشمنی سے نمٹنے کے لیے پالیسیوں میں تبدیلی لازمی قرار

نیویارک(ویب ڈیسک)7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے  یونیورسٹی کیمپسز میں پھیلنے والی یہود دشمنی سے نمٹنے کے لیے ے سٹی یونیورسٹی آف نیویارک میں پالیسیوں کوتبدیل اور اپ ڈیٹ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔یہ خبر ریاست کے سابق چیف جج جوناتھن لپ مین کی رپورٹ کی صؤرت میں سامنے آئی ہے۔گورنر نیویارک کیتھی ہوکل نے  کیمپس میں یہود مخالف واقعات رونما ہونے پر سابق چیف جج کو سفارشات مرتب کرنے کے لیے مقرر کیا تھا۔سابق چیف جج نے10ماہ تک تحقیات کرکے رپورٹ مرتب کی ہے۔منگل کو شائع ہونے والی ایک نئی رپورٹ کے مطابق سٹی یونیورسٹی آف نیویارک کیمپسز میں فلسطینی حامی مظاہرین کی درجنوں گرفتاریاں ہوئی، خاص طور پر  اپریل میں نیویارک پولیس نے  سٹی کالج کے ایک کیمپ کو بند کردیا تھا۔رپورٹ کے مطابق تحقیقات کے دوران لوگوں سے آراء لی گئی جس میں بہت سے لوگوں سے سننے میں آیا کہ  یہود مخالف دشمنی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور نفرت کی شکلوں میں خود کو کیمپس میں غیر محفوظ مھسوس کرتے ہیں ۔ کچھ طلباء نے احتجاج کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا کہ انہیں کلاسوں میں جانے یا کیمپس کی عمارتوں میں داخل ہونے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑا۔اس دوران  انہیں خدشہ تھا کہ انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یونیورسٹی میں ہونے والے احتجاج کو روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے غلط طریقی استعمال کیا اور لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا ۔سابق چیف جج نے سفارشات میں حتمی نتیجہ اخذ کیا کہ یہود دشمنی اور امتیازی سلوک کو روکنے اور ان سے نمٹنے کے لیے سٹی یونیورسٹی آف نیویارک موجودہ پالیسیوں اور طریقہ کار  پر نمایاں طور پر نظر ثانی کی جائے اور پالیسوں کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کیمپسز میں موجود یہوددشمنی اور امتیازی سلوک کی سطح کو سنبھالا جا سکے۔اس حوالے سے گورنر نیویارک نے بیان دیا کہ سٹی یونیورسٹی آف نیویارک میں پہلے ہی کچھ تبدیلیاں کی ہیں لیکن سابق چیف جج لپ مین کی تمام سفارشات پر عمل درآمد کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں گی ۔دوسری جانب پیر کے روز میئر ایرک ایڈمز اور شہر کے دیگر عہدیداروں نے سٹی یونیورسٹی آف نیویارک کے طلباء کے ساتھ ایک گول میز  کانفرنس کی ہے جس میں مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی ۔

This post was originally published on VOSA.