نیویارک پولیس سمیت دیگر خفیہ اداروں کی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ خصوصا صحت سے متعلق کمپنیوں کے اعلی افسران کے خلاف شدید نفرت پائی جارہی ہے ،ایگزیکٹو افسران کے خلاف نفرت میں شدت آچکی ہے، شوٹرمنگیون سے نیویارک میں انتہا پسند سوچ رکھنے والے نوجوان متاثر ہوئے ہیں
نیویارک(ویب ڈیسک)نیویارک پولیس سمیت دیگر خفیہ اداروں نے کارپوریٹ سیکٹر اور خصوصا صحت سے متعلق کمپنیوں کے ایگزیکٹو افسران کو خبردار کیا ہے کہ وہ برائن تھامسن کے قتل کے واقعہ کے بعد چوکس رہیں اور اختیاط برتیں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ایگزیکٹو افسران کے لیے خطرات بڑھ چکے ہیں ۔نیویارک پولیس سمیت خفیہ اداروں کی رپورٹس کے بعد سے کارپوریٹ سیکٹر کے ایگزیکٹو افسران میں ہلچل مچ گئی ہے اور یہ بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ایگزیکٹو افسران سیکورٹی کا ازسرنو جائزہ لے رہے ہیں ۔رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ شوٹر لوئیگی منگیون نے سرے عام برائن تھامسن کو نشانہ بنایا ہے جس سے انتہا پسند سوچ رکھنے والے نوجوان متاثر ہوئے اور مزید ہوسکتے ہیں یہ خطرات کم نہیں ہیں بلکہ بڑھے ہیں۔نیویارک پولیس کے انٹیلی جنس بیورو خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ۔ نیویارک پولیس کی ڈپٹی کمشنر ربیکا وینر نے کہا کہ یقیناً ہم یہاں شہر میں اپنے تمام شراکت داروں کے ساتھ فون پر بات کر رہے ہیں تاکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے اور افسران کی حفاظت کے لیے جو ممکن ہوا کریں گئے۔ انسداد دہشت گردی کے حکام کو خدشہ ہے کہ کچھ لوگ اسے منگیون کی کال ٹو ایکشن سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ نوجوان شوٹر سے متاثر ہوچکے ہیں اور پولیس کو منگل کے روز نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے باہر ایک پورٹریٹ ملا ہے جو کہ ایک ایگزیکٹو افسر کے لیے تھا اس پورٹریٹ پر سرخ X درج تھا ۔اسی طرح تھامسن کے قتل کی تعریف کرنے والے پوسٹرز بھی دریافت ہوئے ہیں جبکہ براڈوے پر اسی طرح کا ایک پوسٹر پھاڑ دیا گیا تھا۔ کاروباری افراد ذاتی طور پر اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ برائن تھامسن کے ساتھ کیا ہوا ہے کیونکہ یہاں ایک لڑکا تھا جو اپنا کام کر رہا تھا لیکن اس کے کچھ ٹھیک نہیں ہوا تھا۔اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ نیویارک شہر کے کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے سے سوشل میڈیا پر انتشار ہے ۔ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ نیویارک کےایگزیکٹوز افسران اپنی ذاتی حفاظت میں اضافہ کر رہے ہیں جبکہ اپنی کمیونٹیز سے تعلقات کو مضبوط بنانے کے منصوبے بھی تیار کر رہے ہیں۔
This post was originally published on VOSA.