
نیویارک(ویب ڈیسک) نیویارک کی وفاقی عدالت نے کولمبیا کی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے فلسطین حامی کارکن محمود خلیل کو حکومت کی حراست سے رہا کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔
جج مائیکل فاربیارز نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خلیل کو گرین کارڈ کی درخواست میں مبینہ غلط بیانی کے الزام پر حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ جج فاربیارز نے ایک ابتدائی حکم امتناع جاری کیا تھا جس میں حکومت کو محمود خلیل کو وزیر خارجہ مارکو روبیو کی سفارش پر ملک بدر کرنے یا حراست میں رکھنے سے روک دیا گیا تھا، لیکن عدالت نے واضح کیا کہ یہ حکم نامہ دیگر قانونی بنیادوں پر حراست پر لاگو نہیں ہوتا۔ محکمہ انصاف نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ خلیل کی حراست گرین کارڈ درخواست میں معلومات چھپانے پر کی گئی، جس پر عدالت نے حکومت کے مؤقف سے اتفاق کیا۔ عدالت نے کہا کہ خلیل کی رہائی کے لیے ضمانت کی نئی درخواست امیگریشن جج کے روبرو دائر کی جا سکتی ہے۔ محمود خلیل کو 8 مارچ کو نیویارک میں ان کے اپارٹمنٹ کی لابی سے حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ ایک گرین کارڈ ہولڈر اور امریکی شہری کی زوجیت میں ہیں، اور اس وقت لوئزیانا کے حراستی مرکز میں موجود ہیں۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ خلیل نے اپنی گرین کارڈ درخواست میں کولمبیا یونیورسٹی کے ایک احتجاجی گروپ سے تعلق اور برطانوی سفارتخانے میں کام سے متعلق تفصیلات چھپائیں۔ ان کے وکلا نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے شواہد فراہم کیے کہ خلیل صرف ایک مذاکرات کار کے طور پر سرگرم تھے۔ محکمہ خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ خلیل کی سرگرمیاں امریکی جامعات میں یہودی طلبہ کے لیے تشویش ماحول پیدا کر رہی ہیں جبکہ خلیل کے وکیل کا کہنا ہے کہ انہیں فلسطینی حقوق کی حمایت پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حکومت دانستہ طور پر ان کے اہل خانہ سے ملاقات میں تاخیر کر رہی ہے۔
This post was originally published on VOSA.