
امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو وفاقی حکومت کے عملے میں بڑے پیمانے پر کمی کے منصوبے پر عمل درآمد کی اجازت دے دی ہے۔
عدالت نے ایک مختصر حکم نامے کے ذریعے چھوٹی عدالتوں کی ان رکاوٹوں کو ختم کر دیا جو اس منصوبے پر عارضی طور پر عمل درآمد سے روک رہی تھیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے صرف صدر کا ایگزیکٹو آرڈر اور وفاقی اداروں کے لیے جاری کردہ حکومتی ہدایات ہیں، جبکہ کوئی مخصوص ملازمتوں میں کمی کا معاملہ زیرِ غور نہیں تھا۔ فیصلے میں صرف جسٹس کیتنجی براؤن جیکسن نے اختلاف کیا اور خبردار کیا کہ اس اقدام سے وسیع پیمانے پر ملازمتوں کا خاتمہ، سرکاری خدمات کی بندش اور وفاقی حکومت کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وفاقی جج سوسن السٹن نے مئی میں ٹرمپ حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ کانگریس کی منظوری کے بغیر وفاقی عملے میں نمایاں کمی نہیں کر سکتی۔ ان کے فیصلے کو فیڈرل اپیل کورٹ نے برقرار رکھا تھا لیکن اب سپریم کورٹ نے ان احکامات کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ عوام نے انہیں حکومت کی تنظیمِ نو کا مینڈیٹ دیا ہے اور انہوں نے وفاقی اداروں میں کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کے ذریعے اقدامات شروع کیے۔ اس منصوبے کی نگرانی ابتدائی طور پر ایلون مسک نے کی تھی، جو اب علیحدہ ہو چکے ہیں۔
This post was originally published on VOSA.