امریکی شہریت کے لیے “اچھے اخلاقی کردار” کی شرط مزید سخت

ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکی شہریت کے خواہشمند قانونی امیگرینٹس کی درخواستوں میں اچھے اخلاقی کردار کے معیار کو پہلے سے زیادہ سختی سے پرکھا جائے گا۔ 

یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز (USCIS) نے اپنے افسران کو ہدایت دی ہے کہ اب یہ پرکھنا صرف مجرمانہ ریکارڈ یا سنگین جرائم تک محدود نہ رہے بلکہ درخواست گزار کے رویے، سماجی اقدار کی پاسداری اور کمیونٹی میں مثبت کردار کو بھی مدنظر رکھا جائے۔نئی پالیسی کے مطابق، افسران کو ایسے مثبت عوامل پر زیادہ زور دینے کی ہدایت دی گئی ہے جن میں کمیونٹی میں شمولیت، خاندانی ذمہ داری، تعلیمی کامیابیاں، مستقل اور قانونی روزگار، امریکہ میں گزارا گیا وقت اور ٹیکس کی ادائیگی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عوامل بھی زیر غور آئیں گے جو اگرچہ قانونی ہوں لیکن شہری ذمہ داری کے منافی سمجھے جاتے ہیں، جیسے بار بار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی یا عوامی مقامات پر ہراسانی۔پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی نے ماضی میں غلط رویہ اپنایا ہو مگر بعد میں بہتری لائی ہو، جیسے پروبیشن کی پابندی، بقایا ٹیکس یا نان نفقہ ادا کرنا، یا کمیونٹی سے حمایت کے خطوط حاصل کرنا، تو یہ بھی "اچھے اخلاقی کردار” کا حصہ تصور کیا جائے گا۔یو ایس سی آئی ایس کے ترجمان میتھیو ٹریگیسر نے کہا کہ یہ اقدام امریکی شہریت کے معیار کو مزید معتبر بنانے کی کوشش ہے، تاکہ صرف وہی افراد شہریت حاصل کریں جو امریکی اقدار، تاریخ اور زبان کے ساتھ ساتھ اخلاقی کردار کے اعلیٰ معیار پر بھی پورا اتریں۔ تاہم سابق حکومتی عہدیدار ڈگ رینڈ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس پالیسی کا مقصد قانونی امیگرینٹس کو خوفزدہ کر کے درخواستوں سے روکنا اور زیادہ درخواستیں مسترد کرنے کے لیے افسران کو اختیارات دینا ہے۔ماہرین کے مطابق یہ اقدام ٹرمپ انتظامیہ کی اس وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں غیر قانونی امیگریشن کے خلاف کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ قانونی امیگریشن کو بھی مزید محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس میں پناہ گزینوں کی تعداد کم کرنا، ویزوں پر پابندیاں اور درخواستوں کے لیے سخت جانچ شامل ہیں۔

This post was originally published on VOSA.