
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکا میں موجود ان ہزاروں غیر قانونی تارکین وطن پر اربوں ڈالر کے جرمانے عائد کر دیے ہیں جو عدالتی حکم کے باوجود ملک نہیں چھوڑ رہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق اب تک 21 ہزار سے زائد افراد پر مجموعی طور پر 6.1 بلین ڈالر کے جرمانے لاگو ہو چکے ہیں، اور حکومت نے ان کی وصولی کا عمل تیز کر دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق جرمانے کی رقم روزانہ 998 ڈالر تک بڑھ سکتی ہے، جو پچھلے پانچ سال تک واپس لاگو کی جاتی ہے۔ اس طرح بعض تارکین وطن پر جرمانے کی مالیت 1.8 ملین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے اس وصولی کے لیے ٹیکس ریفنڈ ضبط کرنے، کریڈٹ اسکور متاثر کرنے، قانونی مقدمات درج کرنے اور واجب الادا رقم کو آمدنی کے طور پر ظاہر کرنے جیسے اقدامات اختیار کیے ہیں۔منتظمین کا کہنا ہے کہ اس حکمتِ عملی کا مقصد یہ ہے کہ افراد خود بخود ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔ انہیں ملک واپسی پر 1,000 ڈالر "ایگزٹ بونس” دینے کی پیشکش بھی کی جا رہی ہے۔ تاہم، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین قانون نے اسے "نفسیاتی جنگ” قرار دیا ہے، جو خاص طور پر کم آمدنی والے تارکین وطن پر شدید دباؤ ڈال رہی ہے۔کئی ماہرین کے نزدیک یہ جرمانے حقیقت میں ناقابلِ وصول ہیں، لیکن خوف کے باعث بہت سے لوگ رضاکارانہ طور پر واپس جانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ بعض ماہرین نے خبردار کیا کہ یہ اقدامات نہ صرف قانونی پیچیدگیاں پیدا کریں گے بلکہ تارکین وطن کی برادریوں میں عدم تحفظ اور خوف کو بھی بڑھائیں گے۔
This post was originally published on VOSA.