امریکا: تارکین وطن مزدوروں پر بڑھتا دباؤ، صنعتیں متاثر

ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کے باعث زرعی اور خوراکی صنعتوں میں کام کرنے والے تارکین وطن شدید دباؤ کا شکار ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا مرسیڈ اور امریکن امیگریشن کونسل رپورٹ کے مطابق 5 لاکھ 30 ہزار سے زائد تارکین وطن کے ورک پرمٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں، جن میں کھیتوں، ہوٹلوں، ریستورانوں اور فوڈ پروسیسنگ فیکٹریوں میں کام کرنے والے ہزاروں افراد شامل ہیں۔حکومت نے حال ہی میں غیر دستاویزی افراد کے لیے وفاقی فنڈ سے چلنے والے کلینکس میں بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس صورتحال میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد چھاپوں اور ڈی پورٹیشن کے خوف سے گھروں میں محدود ہو گئے ہیں۔ صرف کیلیفورنیا میں ہی افرادی قوت میں 3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جو بڑی کساد بازاری اور کووڈ-19 وبا کے بعد سب سے بڑی گراوٹ ہے۔ریسٹورانٹ ایسوسی ایشن اور کسان رہنماؤں نے کہا ہے کہ موجودہ پالیسیاں صنعت کو تباہ کر رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدامات نہ صرف تارکین وطن کو عوامی زندگی سے پیچھے دھکیل رہے ہیں بلکہ ان اداروں کو بھی متاثر کر رہے ہیں جن کے ساتھ یہ افراد جڑے ہوئے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی خوراکی نظام تارکین وطن مزدوروں کے بغیر نہیں چل سکتا، لیکن ان کی اہمیت صرف مزدوری تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ ہر شخص کو اس کی انسانیت کے اعتبار سے عزت دی جانی چاہیے۔

This post was originally published on VOSA.