ٹرمپ پالیسیوں کے باعث 12 لاکھ تارکین وطن ورک فورس سے باہر

واشنگٹن(ویب ڈیسک)ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ جنوری سے جولائی 2025 تک امریکا کی ورک فورس سے 12 لاکھ سے زائد تارکین وطن باہر ہوگئے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے جولائی 2025 تک امریکا کی ورک فورس سے 12 لاکھ سے زائد تارکین وطن نکل گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ یہ افراد اب ملک کی معیشت میں کام کرنے والی افرادی قوت کا حصہ نہیں رہے، کچھ ملک چھوڑ گئے، کچھ کو بے دخل یا گرفتار کر لیا گیا اور کئی نے سخت پالیسیوں اور چھاپوں کے خوف سے ملازمتیں ترک کر دیں۔پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیق کے مطابق تارکین وطن امریکا کی مجموعی ورک فورس کا تقریباً 20 فیصد ہیں، جبکہ زرعی، تعمیراتی اور سروس سیکٹرز میں ان کا کردار نمایاں ہے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ زراعت، ماہی گیری اور جنگلات کے شعبے میں 45 فیصد مزدور تارکین وطن ہیں، تعمیرات میں 30 فیصد اور سروس سیکٹر میں 24 فیصد کارکن شامل ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی یہ کمی براہِ راست امریکی معیشت پر اثر ڈال رہی ہے۔ زرعی شعبے میں فصلیں ضائع ہونے لگیں، تعمیراتی منصوبے سست پڑ گئے اور صحت کے شعبے میں بھی خدشات بڑھ گئے ہیں کیونکہ گھر پر خدمات فراہم کرنے والے تقریباً 43 فیصد ورکرز تارکین وطن ہیں۔مزدور تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو اسپتالوں، نرسنگ ہومز اور کھیتوں میں شدید افرادی قوت کا بحران پیدا ہو جائے گا۔ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ پالیسیاں صرف غیر قانونی تارکین وطن کو نشانہ بنا رہی ہیں اور مقصد ’خطرناک مجرموں‘ کو ملک سے نکالنا ہے۔ تاہم اعداد و شمار کے مطابق زیادہ تر گرفتار افراد کے خلاف کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود نہیں۔ ناقدین نے کہا ہے کہ یہ اقدامات دراصل امریکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے سیکٹرز میں محنت کشوں کی شدید کمی پیدا کر رہے ہیں۔

This post was originally published on VOSA.