
ٹرمپ انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ امریکی شہریت کے پیدائشی حق کو ختم کرنے سے متعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکمنامے کی آئینی حیثیت کا جائزہ لیا جائے۔
یہ اپیلیں واشنگٹن اسٹیٹ اور نیو ہمپشائر کی عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات سے متعلق ہیں اور ان کا فیصلہ اس متنازعہ پالیسی کی آئینی حیثیت کو ہمیشہ کے لیے طے کر سکتا ہے۔ امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کے مطابق، امریکا کی سرزمین پر پیدا ہونے والا ہر بچہ شہری تصور کیا جاتا ہے، سوائے ان بچوں کے جو غیر ملکی سفارتکاروں کے ہاں پیدا ہوں۔ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ یہ ضمانت اُن افراد کے بچوں پر لاگو نہیں ہوتی جو عارضی طور پر امریکا آئے ہوں یا جو غیر قانونی طور پر داخل ہوئے ہوں۔ امریکی حکومت کے سالیسیٹر جنرل ڈی جان ساور نے عدالت میں جمع کرائے گئے کاغذات میں لکھا کہ "ایک صدی سے زیادہ عرصے سے رائج یہ تشریح دراصل چودھویں ترمیم کی غلط تعبیر ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہوئے ہیں۔”یہ نئی اپیلیں اُن مقدمات سے مختلف ہیں جن پر عدالتِ عظمیٰ نے رواں سال کے اوائل میں انتظامیہ کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اس وقت عدالت نے صرف یہ طے کیا تھا کہ کیا وفاقی جج اس پالیسی پر ملک بھر میں پابندی لگا سکتے ہیں یا نہیں۔ موجودہ اپیلیں کسی ہنگامی فیصلے کے لیے نہیں بلکہ باقاعدہ عدالتی سماعت کے ذریعے فیصلہ لینے کے لیے دائر کی گئی ہیں، جو ممکنہ طور پر اگلے سال جون تک مکمل ہوگی۔امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) کے امیگرنٹس رائٹس پروجیکٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کوڈی ووفسی نے کہا کہ "یہ ایگزیکٹو آرڈر غیر قانونی ہے، اور انتظامیہ جتنی بھی قانونی چالیں چل لے، یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔”
This post was originally published on VOSA.