مئیر نیویارک کے اردگرد موجود لوگ ایڈورڈ کبان کو ہٹانے میں کامیاب ہوئے،امریکی صحافی

 نیویارک (ویب ڈیسک)ایف بی آئی کی کارروائیوں اور نیویارک  پولیس کے سابق کمشنر ایڈورڈ کبان کے استعفی کے بعد بھی نیویارک کے ہلکوں میں بحث جاری ہے کہ آیا شہر میں ہو کیا رہا ہے اور ایڈورڈ کبان نے استعفی کیوں دیا ۔اس حوالے سے ایک امریکن ٹی وی کے رپورٹرز نے گرم گرم بحث پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ پولیٹیکل رپورٹر ہینری روسوف، دی سٹی رپورٹر کیٹی ہونان تجزیہ کار جے سی پولانو ایک پروگرام میں شریک ہوئے ۔امریکی صحافیوں نے عوامی نقطہ نظر پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایڈورڈ کبان کے استعفی سے  ایک ہفتہ قبل میئر ایرک ایڈمز نے کہا تھا کہ انہیں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کے دوران کمشنر ایڈورڈ کبان اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں پر مکمل اعتماد ہے۔پھر ہوا کچھ یوں کہ جمعرات کو کبان نے استعفیٰ دیدیااور ایڈمز نے استعفی کے فورا بعد ہی ایف بی آئی کے سابق اہلکار ٹام ڈونلون کو نیویارک پولیس کا عبوری کمشنر مقرر کردیا۔صحافیون نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ذرائع کی رپورٹنگ سے معلوم ہوا کہ یقینی طور پر میئر کے اردگرد ایسے لوگ موجود تھے جو کبان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے ۔وہ لوگ کبان کو پچھلے دروازے سے باہر دھکیلنے کی کوشش کر رہے تھے  اور پھر وہ لوگ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تک واحد کبان ہی تھا جسے  نیویارک پولیس سے باہر پھینکنا تھا۔صحافیوں کا کہنا تھا کہ  ہم نے ابھی چانسلر ڈیوڈ بینکس کو بھی سنا ہے جنہوں نے سوالوں کا جوابات تک دینے سے انکار کر دیا کہ آیا انہیں استعفیٰ دینا چاہیے۔صحافیوں کا مزید کہنا تھا کہ ایف بی آئی ہیلو کہنے اور چائے کافی پینے گھروں پر نہیں آتی ہے انہوں نے چھاپے مارے ہیں۔ایف بی آئی نے  موبائل فون لیے یا انہیں اٹارنی کے پاس جمع کرانے کی ہدایات کی ۔صحافیوں کا کہنا تھا کہ  ہمارےخیال میں میئر کا دفتر لفظ”چھاپہ” کے استعمال کے بارے میں بہت خاص رہا ہے۔یہ بات صاف ہے کہ چھاپے مارے گئے ہیں۔وفاقی تحقیقات سیاست  میں  ابدی دن کی حیثیت رکھتی ہے ۔تجزیہ کار پولانو نے کہا کہ  میں بہت محتاط ہوں کہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں یا نہیں۔میں جانتا ہوں کہ معلومات منٹ تک آتی ہیں اور کئی بار عدالت جانے سے پہلے ہمیں نئی ​​معلومات ملتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ عوامی رائے خوفناک ہے۔سیاست میں عوامی عدالت بہت اہمیت رکھتی ہے۔

This post was originally published on VOSA.