کیا نیویارک میں61سال بعد دوبارہ پھانسی ہوگی؟

شوٹر منگیون کو نیویارک میں قتل کے الزام کا سامنا ہے اور ریاست نیویارک میں آخری پھانسی 1963میں دی گئی تھی جبکہ سزائے موت کا قانون2004 میں ختم کردیا گیا تھا ۔استغاثہ مقدمہ میں دہشت گردی کو فروغ دینے کی دفعات نافذ کرچکی ہے تو کیا ایسی صورت میں سزائے موت کا قانون بحال ہوسکتا ہے

نیویارک(ویب ڈیسک)نیویارک میں قتل کے کیس میں سزائے موت کی بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے چونکہ 2004میں ریاست نیویارک میں سزائے موت کا قانون ختم کردیا گیا تھا اور قتل کے مجرم کو عمر قید کی سزا سنائی جانے لگی اور نیویارک میں آخری پھانسی1963میں دی گئی تھی ۔اب آجائیں کیس کی طرف تو لوئیگی منگیون پر الزام ہے کہ اس نے کھلے عام مین ہٹن میں تھامسن کا قتل کرنے کے بعد فرار ہوا اور تقریبا1ہفتے کے اندر الٹونا سے گرفتار ہوا ۔استغاثہ نے شوٹر منگیون کے خلاف قتل سمیت دیگر دفعات عائد کردی ۔ہوا کچھ اس طرح کے نیویارک میں ایک طبقہ ناانصافیوں سے تنگ تھا تو اس طبقے نے شوٹر منگیون کی حمایت کی اور تھامسن کے قتل پر خوشی کا اظہار کیا اور منگیون کے دفاع کے لیے فنڈز قائم کردیا جہاں پر لوگوں نے رقم عطیہ کردی ۔یہ ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے نیویارک حکام پریشان ہوگئے اور سوسائٹی  میں چل کیا رہا ہے کیسے کسی کے قتل پر جشن منایا جاسکتا ہے ۔جس کے بعد استغاثہ نے شوٹر منگیون کے کیس میں دہشت گردی کو فروغ دینے کی دفعات شامل کردی ۔اب جب دہشت گردی دفعہ شامل ہوئی اور قتل بھی ہوا تو کیا ایسی صورت میں شوٹر منگیون کو سزائے موت ہوسکتی ہے اور کیا نیویارک میں61سال بعد دوبارہ پھانسی دی جاسکتی ہے جو کہ شوٹر منگیون کی صورت میں ہی ہو گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیویارک حکام کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے سے سوسائٹی میں پائے جانے والے غصے کو کم کرنے کے لیے ریاست نیویارک میں2004میں ختم ہونے والا سزائے موت کا قانون دوبارہ بحال کرسکتے ہیں یا پھر دہشت گردی دفعہ میں بھی عمر قید کی ہی سزا دی جائے گی  یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔شوٹر لوئیگی منگیون  پر یونائیٹڈ ہیلتھ کیئر کے سی ای او برائن تھامسن کی موت کا الزام عائد کیا گیا ہے جو ایک سرمایہ کار کی میٹنگ کے لیے جا رہے تھے جب اسے مین ہٹن کے ایک ہوٹل کے باہر گولی مار دی گئی۔ پولیس نے  واقعے کو ٹارگٹ کلنگ کلنگ قرار دیا تھا اور جائے وقوع سے ملنے والے گولیوں کے ڈبے پر "انکار””دفاع” اور "معزول” کے الفاظ تحریر  تھے جس کا مطلب غصے اور بدلے کی آگ کے ہیں۔

This post was originally published on VOSA.