
پاکستان کے کینسر کئیراسپتال اینڈ ریسرچ سنٹر لاہورکا نیویارک میں فنڈ ریزنگ ڈنر کا اہتمام، پاکستانی کمیونٹی کی بڑی تعداد میں شرکت، کینسر کئیراسپتال نے لاکھوں ڈالر عطیات جمع کئے ،بانی و چیئرمین ڈاکٹرشہریار کہتے ہیں ہمارے اسپتال میں تمام علاج مفت ہے ،چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی مریض علاج کے لئے آتے ہیں ۔
نیویارک میں پاکستان کےکینسر کئیر ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹر لاہورکےلئے فنڈ ریزنگ ڈنر کا اہتمام کیا گیا، مقامی ہال میں منعقدہ فنڈ ریزنگ تقریب میں کینسر کئیر ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹرکے بانی و چیئرمین پروفیسر ڈاکٹرشہریار نے خصوصی طور پر شرکت کی جبکہ تقریب کے مہمان خصوصی اے پی پیک کے صدر ڈاکٹر پرویز اقبال تھے،فنڈریزنگ تقریب میں امریکہ میں کیسنر کئیر ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹرلاہور کے کوارڈی نیٹرقاضی احتشام ، بیگم بانو قاضی اور خواتین کی بھی بڑی تعداد نے شریک ہوئے ۔ تقریب میں نظامت کے فرائض حباقاضی نے انجام دئیے ۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔پاکستانی اور امریکی قومی ترانے بھی پڑھے گئے ،کےکینسر کئیر ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹر کی فنڈز ریزنگ تقریب سے خطاب میں بانی و چیئرمین پروفیسر ڈاکٹرشہریار کا کہنا تھاکسی کے ایک اسپتال کے لئے تمام مریضوں کا علاج کرنا ممکن نہیں ہے ،پاکستان میں 70 سے 80 ہزار کینسر کے مریض زیر علاج ہیں ، جب ان کو معلوم ہوتا ہے کہ کینسر کئیر اسپتال میں مفت علاج ہوتا ہے تو وہ اپنا علاج چھوڑ کر ہمارے پاس آجاتے ہیں اتنا زیادہ بوجھ ہمارے لئے ممکن نہیں ہے
اسپتال کے فنڈریزنگ ڈنر کے شرکا نے بانی و چیئرمین ڈاکٹر شہریار سے سوالات بھی کئے۔ ڈاکٹرشہریار کا کہنا تھا ہمارا لیڈیز اسٹاف بلوچستان ، آزاد کشمیر ، سندھ اور کے پی میں مفت میمو گرافی کرتے ہیں، ہم نے ریکارڈ 6 ہزار میمو گرافی کی ہیں ان کا کہنا تھا میں عطیات دینے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کے دلوں میں پاکستان کی جو محبت ہے اس کا مشکور ہوں ۔
امریکن پاکستانی پبلک افئیرز کمیٹی کے صدراور مہمانِ خصوصی ڈاکٹر پرویز اقبال اور دیگر نے تقریب سے خطاب میں کہا پاکستان میں کینسر کا علاج کرانا غریبوں کے لئے نا ممکن ہے ۔ کینسر کئیر اسپتال میں کیش کاونٹر ہی نہیں ہے۔ ڈاکٹر شہریار کینسر کے علاج کے لئے تگودو کررہے ہیں، اللہ تعالی آپ کو مزید ترقی عطا فرمائے ۔کینسر کئیر ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹر کی فنڈریزنگ تقریب کے اختتام پر موسیقی کا بھی اہتمام کیا گیا جس سے شرکا محضوض ہوتے رہے ۔
This post was originally published on VOSA.