
امریکی ریاست لوزیانا کے حراستی مرکز میں 104 روز تک قید میں رہنے کے بعد فلسطینی حامی گریجویٹ طالب علم محمود خلیل نیوآرک لبرٹی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اپنی اہلیہ اور نومولود بیٹے کے ساتھ بحفاظت واپس پہنچ گئے۔
امریکی خبررساں ادارے اے بی سی کے مطابق، گرین کارڈ ہولڈر اور مستقل امریکی رہائشی محمود خلیل کو رواں سال مارچ میں کولمبیا یونیورسٹی کے کیمپس سے امریکی امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ نے گرفتار کر لیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے خلیل پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ کیمپس میں ہونے والے pro-Palestinian مظاہروں میں شریک ہوکر مبینہ طور پر یہود مخالف نظریات کو فروغ دے رہے تھے۔ ایک وفاقی جج نے ریمارکس دیے کہ خلیل کو ان کی سیاسی تقریر کی بنیاد پر حراست میں رکھا گیا، جو امریکی آئین کے مطابق غیرقانونی ہے۔ عدالت نے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا، لیکن اسی روز ایک امیگریشن جج نے ان کی ملک بدری کا فیصلہ بھی سنا دیا۔ خلیل نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی دباؤ کے باوجود فلسطین کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ ان کے مطابق اظہارِ رائے کی آزادی کو سزا دینا امریکی اقدار کے خلاف ہے۔ خلیل کے وکیل نے کہا کہ وفاقی جج کی آئینی تشریحات حتمی حیثیت رکھتی ہیں، جبکہ امیگریشن ججز ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ماتحت ہوتے ہیں اور ان کا کردار پالیسی کی توثیق تک محدود ہوتا ہے۔ خلیل کی رہائی سے قبل ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا ہے اور انہیں صرف مخصوص ریاستوں میں وکیل سے ملاقات، عدالتی کارروائی یا خاندانی وجوہات کے لیے سفر کی اجازت دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے ان کی رہائی کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
This post was originally published on VOSA.