
نیویارک کی اپیلٹ ڈویژن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد 515 ملین ڈالر سے زائد کے بھاری جرمانے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
یہ مقدمہ نیویارک اسٹیٹ کی جانب سے ٹرمپ پر دولت بڑھا چڑھا کر ظاہر کرنے کے الزام میں دائر کیا گیا تھا۔ پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جرمانہ "غیر معمولی اور آٹھویں ترمیم کے خلاف” ہے۔گزشتہ برس جج آرتھر اینگورون نے ٹرمپ کو 355 ملین ڈالر کا جرمانہ کیا تھا، جو سود سمیت 515 ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس کے ساتھ ٹرمپ کے بیٹوں ایرک اور ڈونلڈ جونیئر پر بھی سزائیں عائد کی گئی تھیں، جس سے مجموعی رقم 527 ملین ڈالر سے تجاوز کر گئی تھی۔ تاہم اپیلٹ کورٹ نے پورا جرمانہ ختم کر دیا، البتہ مقدمے کو ریاست کی اعلیٰ عدالت میں لے جانے کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ٹرمپ نے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ "بے گناہ ہیں اور مقدمہ سیاسی انتقام کا حصہ تھا”۔ دوسری جانب نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز نے کہا کہ ٹرمپ نے "جھوٹ اور دھوکہ دہی کے ذریعے فائدہ اٹھایا” اور وہ مزید قانونی اقدامات پر غور کر رہی ہیں۔یہ کیس ٹرمپ کے خلاف جاری کئی قانونی چیلنجز میں سے ایک ہے۔ اس سے قبل وہ ہش منی کیس میں سزا یافتہ قرار پائے، جبکہ ای جین کیرول کے ہتک عزت مقدمے میں بھی بھاری ہرجانہ ادا کرنے کے پابند ہیں۔ تاہم تازہ ترین فیصلہ ان کے کاروباری اور سیاسی مستقبل کے لیے بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔
This post was originally published on VOSA.