امریکہ میں لیبر ڈے اور تارکین وطن مزدوروں کی بڑھتی مشکلات

امریکہ میں ہر سال ستمبر کے پہلے پیر کو لیبر ڈے سے منسوب کیا جاتا ہے، یہ دن امریکہ کی قومی معیشت میں کارکنوں کی خدمات کے اعتراف کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن کے تانے بانے 19 ویں صدی میں چلنے والی مزدوروں کے حقوق کی تحریک سے ہے۔

آج یعنی ستمبر کی پہلی پیر کو بھی امریکہ بھر میں لیبر ڈے منایا جا رہا ہے۔  یہ دن انیسویں صدی کے آخر میں اُس وقت سامنے آیا جب مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے بڑی جدوجہد کی۔ اُس وقت فیکٹریوں اور صنعتوں میں مزدوروں کو روزانہ 12 سے 16 گھنٹے تک کام کروایا جاتا تھا، لیکن اجرت نہایت کم ملتی تھی۔ اسی ظلم کے خلاف محنت کش سڑکوں پر نکلے اور اپنی قربانیوں کے نتیجے میں آٹھ گھنٹے کا کام کا اصول طے ہوا۔  اور اس دن سے آج تک ستمبر کی پیر  کو لیبر ڈے سے منسوب کردیا گیا ہے۔ لیبر ڈے ان قربانیوں کی یاد بھی ہے اور اُن مزدوروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن بھی جن کی محنت نے امریکہ کو دنیا کی بڑی طاقت بنایا۔ لیکن جہاں آج امریکہ میں تقریبات اور ریلیاں ہو رہی ہیں، وہیں ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی مشکلات کا شکار ہے۔ خاص طور پر تارکینِ وطن مزدور جو لاکھوں کی تعداد میں امریکہ کی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ لوگ کھیتوں میں، تعمیراتی سائٹس پر، ریستورانوں میں، ہوٹلوں اور صفائی کے شعبوں میں دن رات کام کرتے ہیں۔ ان کی محنت کے بغیر یہ شعبے چل ہی نہیں سکتے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج وہ ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے سخت بے یقینی کا شکار ہیں، ٹرمپ کے موجودہ دور میں بار بار یہ خبریں سامنے آئیں کہ امیگریشن حکام نے کھیتوں، فیکٹریوں اور تعمیراتی سائٹس پر چھاپے مارے۔ ان کارروائیوں کے بعد درجنوں مزدوروں کو حراست میں لے لیا گیا۔ ایسے اقدامات نے نہ صرف ان مزدوروں کے روزگار کو خطرے میں ڈالا بلکہ باقی تارکین وطن مزدوروں کو بھی خوفزدہ کر دیا۔لیبر ڈے کا پیغام یہی رہا ہے اور ہے کہ مزدور کی محنت کی قدر کی جائے اور سب کے لیے برابر حقوق فراہم کیے جائیں۔ چاہے وہ امریکی شہری ہوں یا کسی اور ملک سے آئے ہوئے مہاجر، ان کی محنت کو تسلیم کرنا اور انہیں انصاف دلانا ضروری ہے۔ اگر یہ دن صرف جلسوں اور تقاریر تک محدود رہا اور حقیقی مسائل حل نہ ہوئے تو اس کی اصل روح ادھوری رہ جائے گی۔

This post was originally published on VOSA.