24 برس بعد بھی 9/11 کے ڈی این اے میچز جاری، ہزاروں متاثرہ خاندان منتظر

آج امریکا پر دہشت گرد حملوں کو 24 برس گزر گئے ہیں۔ اس حوالے سے ملک بھر میں یادگاری تقریبات اور دعائیہ اجتماعات منعقد ہوئے، مگر اتنے برس گزرنے کے باوجود متاثرین کی شناخت کا عمل اب بھی مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ 

11 حکام کے مطابق یہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی فرانزک تحقیقات ہیں اور آج بھی 40 فیصد متاثرین، یعنی تقریباً 1100 افراد کی شناخت نہیں ہو سکی۔اس مشن کی بنیاد اس وقت کے چیف میڈیکل ایگزامنر ڈاکٹر چارلس ہرش نے رکھی تھی جنہوں نے جائے حادثہ سے حاصل ہونے والا ہر ڈی این اے محفوظ رکھنے اور متاثرہ خاندانوں سے نمونے جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔ آج بھی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انہی نمونوں پر تحقیق جاری ہے۔ موجودہ چیف میڈیکل ایگزامنر ڈاکٹر جیسن گراہم کا کہنا ہے کہ ادارہ نے 9/11 کے بعد خاندانوں سے وعدہ کیا تھا کہ چاہے جتنا وقت لگے، ان کے پیاروں کی شناخت کے لیے کام جاری رکھا جائے گا۔ماہرین کے مطابق گزشتہ برسوں میں ڈی این اے ٹیکنالوجی میں نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ ایک نئی مشین نے پرانے دستی مراحل کی جگہ لے لی ہے اور اب نہایت چھوٹے نمونوں سے بھی ڈی این اے نکالنا ممکن ہو گیا ہے۔ کئی کیسز میں خاندانوں سے نئے نمونے حاصل کیے جا رہے ہیں، خاص طور پر ان افراد سے جو حملوں کے وقت بچے تھے اور اب بالغ ہو چکے ہیں۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کچھ ہڈیاں اور باقیات اتنی چھوٹی ہیں کہ ان پر صرف ایک بار ہی تجربہ کیا جا سکتا ہے، اسی لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی سے ٹیسٹ کیا جائے یا مستقبل میں مزید ترقی کا انتظار کیا جائے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ یہ کام صرف مثبت نتائج کے لیے نہیں بلکہ خاندانوں کو بندش اور سکون دینے کے لیے ہے۔

This post was originally published on VOSA.